سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے واضح کیا کہ ویں آئینی ترمیم کے بعد نظرثانی کیس کو چھوٹا بینچ بھی سن سکتا ہے۔
پیر کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی بینچ نے اس اہم آئینی معاملے کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران سینئر وکلاء حامد خان اور فیصل صدیقی عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز میں حامد خان نے بتایا کہ انہوں نے متفرق درخواستیں دائر کی ہیں، جس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کی درخواست ہمیں ابھی نہیں ملی‘ اور انہیں ایڈووکیٹ آن ریکارڈ سے پتہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اس موقع پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ان کی تین متفرق درخواستیں بینچ کے سامنے موجود ہیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ انہوں نے اس بنچ کی تشکیل پر آئینی بنیادوں پر اعتراض اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نظرثانی سے متعلق ایک آئینی اصول طے شدہ ہے کہ جتنے رکنی بنچ نے فیصلہ دیا ہو، اتنے ہی ارکان پر مشتمل بنچ کو نظرثانی کیس سننا چاہیے۔ اس پر جسٹس امین الدین نے نشاندہی کی کہ یہاں دو ارکان نے درخواستیں خارج کہہ کر خود بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا۔ فیصل صدیقی نے جواب میں کہا کہ ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے اور وہ عدالت کی معاونت کریں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا اعتراض کسی جج کی ذات پر نہیں بلکہ یہ ایک خالصتاً آئینی اعتراض ہے۔
جسٹس امین الدین نے مزید کہا کہ تیرہ رکنی بینچ میں سے دو ججز نے خود کو علیحدہ کر لیا، جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ دونوں ججوں نے نوٹس نہ دینے کا خود فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ججز کے اپنے اعتراض کے بعد کیا باقی رہ جاتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ وہ دونوں جج اپنا فیصلہ دے چکے ہیں، اب بیٹھ کر کیا کریں گے؟
فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ نظرثانی ہمیشہ مرکزی کیس سننے والا بینچ ہی سنتا ہے اور چونکہ مرکزی کیس تیرہ رکنی بینچ نے سنا تھا، لہٰذا نظرثانی بھی اسی بینچ کو سننا چاہیے۔ اس پر جسٹس امین الدین نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد نظرثانی کیس کو چھوٹا بینچ بھی سن سکتا ہے، اور اب تیرہ رکنی بینچ کے فیصلے پر آٹھ یا نو رکنی آئینی بینچ سماعت کر سکتا ہے۔
سماعت کے دوران آئینی نکات پر تفصیلی بحث ہوئی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر آئینی بینچ کی تشکیل سے متعلق آرٹیکل 3 پڑھا جائے تو سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئینی بینچ کا دائرہ اختیار کیسز کی حد تک طے شدہ ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ہدایت کی کہ 191 اے اور پانچ کو ملا کر پڑھیں اور ساتھ ہی آرٹیکل 188 بھی دیکھیں۔ جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ ان کا سٹانس کیا ہے۔ فیصل صدیقی نے آرٹیکل 185 کی ذیلی شق 2 کو دیکھنے کی بات کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 191 اے کا تعلق آرٹیکل 185 سے کسی حد تک ہے، لیکن یہ تمام کیسز کے لیے نہیں ہوتا۔ فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ 191 اے اوور رائیٹ ایفکٹ نہیں دیتا، الیکشن ایکٹ براہ راست اپیل کا حق دیتا ہے اور ٹواے کی زبان مختلف ہے، جو قابل غور ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ وہ مزید کتنا وقت لیں گے، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ اعتراضات پر تفصیل سے بیان دیں گے اور اگر ایک اور سماعت لے لیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کل بھی یہاں موجود ہوں گے اور کل دلائل مکمل کر دیں گے۔ اس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آپ اعتراض پر اتنے لمبے دلائل دے رہے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ دو ججز نے مرضی سے خود کو بینچ سے الگ کر لیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد جو ججز میسر تھے وہ سب اب اس بینچ میں شامل ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر چیلنج ہوا تھا تو اس وقت فل کورٹ بیٹھی تھی۔ اس وقت یہ سوال تھا کہ اگر یہ سب ججز سن رہے ہیں تو ان کے خلاف اپیل کون سنے گا؟ جس پر سب ججز نے اپنی اپنی رائے دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ فرض کریں اگر آئینی بینچ میں دو ججز مزید شامل ہو جائیں تو آئینی بینچ کے ججز کی تعداد 15 ہو جائے گی، اور اس بینچ میں 13 ججز ہو جائیں گے۔ اگر دوبارہ ان 13 میں سے 2 ججز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا تو پھر باقی 11 ججز بچ جائیں گے، پھر کیا کریں گے؟ یہ 11 رکنی بینچ ان دو الگ ہونے والے ججز کی مرضی سے بنایا گیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ ہمیں صرف اعتراض نہ بتائیں، اس کا حل بھی دیں۔ اس پر وکیل فیصل صدیقی نے تجویز دی کہ کیس کی سماعت ملتوی کر کے کیس کو دوبارہ سے جوڈیشل کمیشن کو بھیج دیا جائے۔ جوڈیشل کمیشن دو ججز کو مزید آئینی بینچ میں شامل کر دے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ درخواست کو مسترد کرنے والے دو ججز اس کیس میں فیصلہ دے چکے ہیں، ان کا کیا اسٹیٹس ہوگا؟ کیا وہ ججز دوبارہ سے پھر بیٹھیں گے؟ اگر وہ دو ججز بیٹھیں گے تو کیا وہ اپنا فیصلہ دوبارہ سے ری ویو کر سکیں گے؟
فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ جی بالکل، وہ دو ججز اپنا فیصلہ ری ویو کر سکتے ہیں۔