خیبرپختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ موجودہ بجٹ میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقیاتی و مالی ترجیحات طے کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وفاق کی کارکردگی بہتر ہو تو صوبے بھی بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔
مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال خیبر پختونخوا پر معاشی دباؤ بہت زیادہ تھا اور وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیکس وصولیوں میں کمی کی وجہ سے صوبے کو 90 ارب روپے کم ملے۔ وفاقی بجٹ میں خیبر پختونخوا کے لیے مختص ترقیاتی فنڈز سندھ اور پنجاب سے بھی کم رکھے گئے ہیں، جب کہ این ایف سی اور اے ڈی پی کی مکمل رقم کبھی فراہم نہیں کی گئی۔
مزمل اسلم کے مطابق صوبے نے رواں مالی سال کے دوران 93 ارب روپے کا ہدف حاصل کرنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ قبائلی اضلاع میں سال 2024 کے دوران 20 ارب روپے اے آئی پی کی مد میں جبکہ 47 ارب روپے کا کرنٹ بجٹ اپنی جیب سے خرچ کیا گیا۔
مزمل اسلم نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 153 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے، جس سے 419 ارب روپے کی اسکیمیں مکمل کی جا چکی ہیں۔ اگلے مالی سال میں 810 ترقیاتی منصوبے شامل کیے گئے ہیں جن کی مجموعی لاگت 500 ارب روپے سے زائد ہے۔
مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ نئے مالی سال میں کوئی نیا قرضہ نہیں لیا جا رہا، تاہم اگر کوئی میگا پراجیکٹ شروع کرنا ہو تو قرض لیا جا سکتا ہے۔ حکومت نے قرضوں کی ادائیگی کے لیے ڈیڑھ سو ارب روپے مختص کیے ہیں جس سے روزانہ 6 کروڑ روپے منافع حاصل ہو رہا ہے۔ آئندہ برس قرض ادائیگی فنڈز سے 17 سے 18 ارب روپے آمدن کی توقع ہے۔
مزمل اسلم کے مطابق وفاق پہلی بار اگلے مالی سال میں 70 ارب روپے کی مکمل ادائیگی کرے گا جب کہ پن بجلی کی مد میں خیبرپختونخوا کو ماہانہ 3 ارب روپے ادا کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے سرکاری ملازمین تقریباً 30 مختلف الاؤنسز لے رہے ہیں۔ سیکرٹریٹ سے باہر کے ملازمین کے لیے ڈیسپیرٹی الاؤنس 30 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ پولیس اہلکاروں کی تنخواہیں پنجاب پولیس کے مساوی کر دی گئی ہیں اور ان میں مزید 10 فیصد اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔
مزمل اسلم نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت مالی نظم و ضبط، عوامی فلاح، اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کو اپنی ترجیحات میں اولین رکھے گی۔